کچھ لکھنے بیٹھی تھی
شائد افسانہ کوئی
پر لکھتے لکھتے قلم رکنے لگا
اک درد سا دل میں ہونے لگا
بے خیالی میں
آڑی ترچھی لکیریں پڑھنے لگیں
سوچ الٹ پلٹ ہونے لگی
صفحے کالی سیاہی سے
رنگین ہونے لگے
چر مرے الفاظ اپنا جادو کھونے لگے
یقین کی وادیوں میں جیسے
طلاطم سا ہوے لگے
بے ہنگم سا شور دل میں اٹھنے لگے
گھبرا کے قلم روک دیا وہیں
جہاں چیخ اٹھے تھے الفاظ سبھی
نظر ڈالی تو صفحے کورے تھے سبھی
شائد بہتی آنکھوں نے مٹادی ہے
یہ ادھوری کہانی بھی میری
شائد اب نہ لکھ پائوں
کوئی افسانہ کبھی
برداشت کی قوت بھی ختم ہونے لگی
سہل نہیں کٹھن ہے سفر قلم میرا
درد سے رشتہ ہے کوئی یہ پرانا میرا
چیخ اٹھیں ساری کہانیاں میری
بلبلا اٹھے الفاظ سبھی
دم توڑ گئی شاعری بھی میرے اندر کہیں
ٹوٹ کر بکھرنے لگے دیکھو
یہ رشتے سبھی
قلم رک گیا جہاں تھا وہیں
تسلسل نہ برت پاؤں گی میں اب کبھی
دل بھی بے اختیار رونے لگا
فن چپ چاپ میرے اندر کہیں مرنے لگا