کب سے چلی ہوں میں منزل کی طرف
راستے کی خبر نہیں ، خوشی کا گمان نہیں ہوتا
ہر ُدکھ تو آنکھوں سے عیاں نہیں ہوتا
ہر کسی کے لیے تو کوئی پریشان نہیں ہوتا
سجدوں میں تو ہزاروں لوگ گرتے ہیں مگر
سب پر خدا ایک جیسا مہربان نہیں ہوتا
وہ کیونکر پکارے گا مجھے میری حثیت ہی کیا
جو ُمکر جائے زبان سے وہ انسان نہیں ہوتا
سنگ دلی کی دنیا ہے پتھر بن کر جیو
خدا کس میں نہیں یہ راز افشاں نہیں ہوتا
وہ کیوں مجھے اپنا کہتا ہے جبکہ
میرا دل دکھا کر وہ پیشمان نہیں ہوتا
کتنی دعایئں مانگو کہ اب سکت نہیں
لکی ! میرا جینا آخر کیوں آسان نہیں ہوتا