لیۓ پھرتے ہیں دِل کا بوجھ دِل پر ایک مدُت سے
کہ ہم اوڑھے ہوۓ ہیں غم کی چادر ایک مدُت سے
ہم اپنے خواب جانے کِس گلی میں چھوڑ آۓ تھے
ہوۓ ہیں رتجگے اپنا مقدر ایک مدُت سے
کہا ہے آپ سے کِس نے کہ ہم صحرا گذیدہ ہیں ؟
چھپا رکھا ہے آ نکھوں میں سمندر ایک مدُت سے
نچوڑی پھوُل سے چہروں کی ساری تازگی کِس نے؟
صفِ ماتم بچھایٔ کِس نے گھر گھر ایک مدُت سے
کبھی اے کاش کھل کے ابر دھرتی پر برس جاۓ
لگی ہے پیاس کھیتوں کو برابر ایک مدُت سے
تجھے جانِ تمنا جب سے اِس دِل میں بسایا ہے
مجھے لگتا ہے بیگانہ مِرا گھر ایک مدُت سے
نجانے کِس کی نظرِ بد نے کی ہے چاندنی میلی
نہیں پھر چاند نے دیکھا پلٹ کر ایک مدُت سے
انا کیا چیز ہوتی ہے یہ کِس کو یاد ہے عذراؔ
جھکا رکھا ہے اُن کے سامنے سر ایک مدُت سے