ماضی کی یادوں کا قلعہ بنا کے
ان کے جھروکوں سے میں دیکھتی ہوں
آنسوؤں کی ہے ندیا بہتی ہوئی
اور اس میں آس کی ناؤ ڈولتی ہوئی
ڈھونڈتی ہے کنارا مگر ہے کہاں
اندھیرا اندھیرا اندھیرا
اجالا مگر ہے کہاں
آہوں سسکیوں کا شور ہے
لاشیں آرزؤں کی تڑپتی ہوئیں
بکھری ہیں جا بجا
اٹھی نظر تو دیکھا عجب اک تماشا
اپنے ہی ہاتھ میں دبا ہوا ہے خنجر
اپنا ہی لہو اپنے ہاتھ پر
کانپ اٹھا سارا جسم و تن
کہاں یارا اب اور دیکھنے کا
خوف سے کر لیں بند آنکھیں
نکل آئی ماضی کی دھند سے
ابھی سنبھل نہ پائی تھی کہ
ڈر گئی حال کا آئینہ دیکھ کر