ماضی کے دریچوں میں کوئی گھات نہیں ہے
وہ پہلی سی چاہت کی بھی برسات نہیں ہے
سوچا ہے کہ تنہائی کے اس دشت میں رہ لوں
تم ساتھ نہیں دو تو کوئی بات نہیں ہے
کیا خوف کے عالم میں ہیں لپٹے ہوئے الفاظ
اک ایسی گھٹن ہے کہ زباں ساتھ نہیں ہے
اے شام مجھے اپنے ہی سائے میں چھپا لے
اب میرے مقدر میں یہاں رات نہیں ہے
سب دیکھتے رہتے ہیں قطاروں میں تماشا
عزّت بھی مری آج مرے ہاتھ نہیں ہے
کیا تیری امارت پہ لکھوں آج میں وشمہ
اب میرے اثاثوں میں مری ذات نہیں ہے