مجھے اپنی ماں سے
دوری بڑھانی پڑی
نا چاہیتے ہوئے بھی
آںکھوں کی نمی چھپانے پڑی
بتانے کو تو کوئی خوشی
نا تھی میرے پاس
پھر مجھے اک من گھڑایت
کہانی بنانی پڑی
میری نرمی سے کہیں
سمجھ نا جائے میرے اندر کا غم
پھر مجھے اپنی زبان پر
تلخی لانی پڑی
بہت سکون ملا آج
ماں کی گود میں لیٹ کر
آنسو ضبط کر کے لیکن
مجھے روح تک نہلانی پڑی
خنجر سے کٹا سینہ ۔
چاک چاک دکھوں سے
ماں کی خاطر مجھے
مسکان لبوں پر سجانی پڑٰی
وہ گڑیا ۔ وہ بچپن
کہاں سے لاؤں اب لکی
میرے اندر چلتے طوفان کو
ہنٹوں کی خاموشی بنانی پڑی