مایوسیوں کا دور ہے کچھ بے حساب سا
ناکامیوں کا زور ہے کچھ لاجواب سا
دریچئہ دل کھلا رہا ہے تمام شب
اترا نہ اس میں چہرہ کوئی ماہتاب سا
سینے پہ کھائے ہم نے اکثر نظر کے تیر
پیا ہے ہم نے اکثر زہریلا آب سا
وقت نے کیے ہیں ہم پہ کئی ستم
یہ دور گزر رہا ہے ہم پہ خراب سا
یہ جان چھوٹے تب بھی نہ ملے سکون شاید
نہ گل ہی کھلے لحد پہ ہماری گلاب سا