مت الزام دہ دریا کو طغیانی کا
بند کمزور ہوں تو شہر ڈوب ہی جاتا ہے
سہ گیا درد جدائ،اگرچہ پہاڑ تہا کہ آخر
سمندر کی وسعت میں تو پتہر ڈوب ہی جاتا ہے
عروج و زوال سے عبارت ہے زندگی
شام ڈھلے سورج بھی تو آخر ڈوب ہی جاتا ہے
دکھوں کے ساون میں آنکھ اوڑھ لے قبائے آب
صحراءے حیات کا تو ہر منظر ڈوب ہی جاتا ہے
موسی ہو تو دریا بھی دیتا ہے رستہ کاشف۔۔۔
ٰانسان فرعون بن جائے تو بے خبر ڈوب ہی جاتا ہے