تمہیں کل بھی کھو دیا تھا تجھے آج بھی چھوڑنا ہے ھجر کل بھی پہنا تھا غم آج بھی اوڑھنا ہے ہمیشھ سے ہی رہی ہے یہ عادت بری میری ہراچھی چیز سے آخر منہ موڑنا ہے کوئی دیکھے تو زرا مجبوری میری عافرہ جس دل میں ہے وہ بسا آج اسے ہی توڑنا ہے