مجھی میں ہے جو چھپا ٗ وہ خون کہاں سے لاؤں
جو کھینچ لے رشتوں کو ٗ وہ جنون کہاں سے لاؤں
لے بھاگی ماضی کی کالی رات میرے چین کو
نظامِ کائنات کیسے بدلوں ٗ سکون کہاں سے لاؤں
دن آتے رہیں گے زندگی کے اُس پار جاتے جاتے
مگر وہ سالِ وصال ٗ وہ ماہِ جون کہاں سے لاؤں
اِک ڈور سے منسلک ہو رشتوں کا ہر اگلا پڑاؤ
بکھریں نہ لڑیوں کے موتی ٗ قانون کہاں سے لاؤں