مجھے اس کے روبرو میرا قرار لے گیا
کہاں سے کہاں تک یہ پیار لے گیا
وفاؤں کی دیکھ کر خرید و فروخت کو
اک بے بس بھی خود کو بازار لے گیا
محبت نہ سہی سوچا تھا نفرت ہی رہے گی
وہ کمبخت مجھ سے یہ بھی اختیار لے گیا
اس کا فن تھا یا میرا شوق ء دید
مجھ سے وہ میرے سب اقرار لے گیا
اپنی ہی بات پہ عنبر نہ قائم رہ سکا
جھوٹ تھا کہ انساں کا کردار لے گیا