مجھے جینے سے ڈر لگتا ہے
جام زندگی پینے سے ڈر لگتا ہے
ظلم حد سے بڑ ھنے لگا ہے اب
مجھے لب سینے سے ڈر لگتا ہے
ہے کر ڈالا انسان نے خدا تقسیم
مجھے عبادت کرنے سے ڈر لگتا ہے
میرے شہر کی گلیاں بنی خون کی ندیاں
مجھے گھر جانے سے ڈر لگتا ہے
مجھ سے چھین گئیں کتابیں میری
مجھے سکول جانے سے ڈر لگتا ہے
کہیں نالہ ہے کہیں غموں کی بارش
مجھے یہ کہنے سے ڈر لگتا ہے
خوشیاں روٹھ گئیں میرے وطن سے
مجھے مسکرانے سے ڈر لگتا ہے
مانگوں تو خدا سے کیا مانگوں
مجھے ہاتھ اٹھنے سے ڈر لگتا ہے
غم دوراں ہوا حصئہ زندگی میر ا
مجھے دل لگنے سے ڈر لگتا ہے
لے لے میری زندگی اب میرےمالک
مجھے اب جینے سے ڈر لگتا ہے