مجھے خاکداں میں گرایا کسی نے
کوئی پاپ تھا جو چھپایا کسی نے
ٹِھٹَھر کےمری جان لب پر جو آئی
مجھے دے کے چادر بچایا کسی نے
دعا نکلی میرے یہ معصوم دل سے
چلو شکر کھانا بچایا کسی نے
جو روٹی اٹھاتے گرفتہ ہوا میں
مرا ہاتھ دایاں جلایا کسی نے
یہی میں نے پہچان اپنی بنا لی
جو بے نام کہہ کر بلایا کسی نے
میں اک رہگزر پہ جو سویا ہوا تھا
مجھے پتھروں سے جگایا کسی نے
میں پھر جنگلوں سے پلٹ کر نہ آیا
مجھے شہر میں جو ستایا کسی نے
گِدھوں اور چِیلوں نے آ کر سنبھالا
جو لاشہ مرا نہ اٹھایا کسی نے