مجھے خود سے دور رہنے دو
تمہارے بن جینے کی
مجھے عادت ڈال لینے دو
تمہاری نظروں میں میری حیثیت کیا ہے
اس سچ سے ابھی ناواقف ہی رہنے دو
مجھے خوشیاں راس نہیں آتیں
اس حقیقت کو زرہ تسلیم کرنے دو
کیوں اسے تم آواز دیتے ہو
اے دل زرہ خود کو سنمبھل لینے دو
تم ابھی بھی مجھ کو دوست سمجھتے ہو
اس بھرم کو ابھی قائم رہنے دو
ہر کوئی بدل جائے یہ ضروری تو نہیں
ابھی اس بات پر مجھے قائل رہنے دو
تم لوٹ کر کبھی نہ واپس آنا
مجھے مستقل انتظار میں رہنے دو