ُمجھے اپنے ضبط پے ناز تھا سرے بزم رات میں کیا ہوا
میری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
میری زندگی کے چراغ کا مزاج کوئی نیا نہیں
کبھی روشنی کبھی دیرگی نا جلا ہوا نا بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جان ملا وہی پختہ کارے جفا ملا
نا کسی کی ضرب غلط پڑی نا کسی کا تیر خطا ہوا
مجھے آپ کیوں نا سمجھ سکے خود اپنے دل سے پوچھئے
میری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
گزرے جو میرے سامنے سے نظر بچا کے ابھی ابھی
یہ میرے شہر کے لوگ تھے میرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
مجھے اک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خون دل سے لکھا ہوا کہیں آ نسوؤں سے مٹا ہوا
ہمیں اس کا کوئی حق نہیں کہ شریک بزم خلوص ہوں
نا ہمارے پاس نقاب ہے نا کچھ آستیں میں چھپا ہوا
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا نا سفر کا حق ادا ہوا