مجھے فرست ملی تو ایک خط لکھونگی
اپنی زندگی کی داستان کو ایک کاغذ پہ رکھونگی
زندگی خوبصورت کتنی تھی وہ سب لکھونگی
غم کتنے اس دنیا نے دیے اسے ایک کاغذ پر لکھونگی۔
کتنے مخلص لوگ ملے انکا اخلاق لکھونگی
اور کتنوں نے اپنے مطلب کے لیے استمال کرا انکا حساب لکھونگی۔
جھوٹی محبت پر کس طرح آندھا بھروسہ کرا وہ اپنی بیوقوفیاں لکھونگی
سچی محبت سے کس طرح سے ایمان اٹھ گیا وہ نقصان لکھونگی۔
کس طرح تنہائی میں روئی ہوں وہ سب لکھونگی،
کس ترہ محفل میں دکھ چھپائے ہیں وہ ہنر لکھونگی۔
زندگی کتنی برباد کری ہے وہ ہسا لکھونگی
اور کتنی باقی بچی ہے وہ نعمت لکھونگی۔
ایک آنکھ سے گرا آنسوؤں کا قطرا اس کے نام لکھونگی
کتنا جھوٹا مسکرائی ہو اس مسکراہٹ کے پیچھے کا غم لکھو گے۔
لکھونگی یہ بھی کے کتنے غم ملے
آخر میں ملے سبک پر خدا کا شکر لکھونگی۔
پھر سوچتی ہوں کی اس کاغذ پر کیسے اپنے جذبات لکھونگی،
کسے دکھ، درد، غم، سبک اور احساسات لکھونگی۔
پھر بھی زندگی کا اپنی ایک ایک ہسا لکھونگی
مجھے فرست ملی تو تمہیں ایک خط لکھونگی۔