وہ اب بھی چاہتا ہے کہ
میں اسے چاہوں
اس سے بولوں
کوئی بات کروں
اس کی راہ سجاؤں
اسے پھر چاہوں
وہ اب بھی حق سمجھتا ہے
مجھ سے کوئی گلہ رکھتا ہے
آنکھوں میں شکوا ، باتوں میں طنز
جیسے کوئی اپنا کسی پہ حق رکھتا ہے
اسے اب بھی شائد انتظار رہتا ہے
میرے آنے کا مجھ سے ملنے کا
میں نے کہا تھا اسے کہ
وقت نکل جائے گا
چااتوں کا موسم بدل جائے گا
جو ہوش سے بیگانہ ہے آج
آخر اک دن سنبھل جائے گا
اس کا یقیں کتنا عجیب تھا
اسے وہ سب مذاق ہی لگتا تھا
وہ کہتا تھا سب سے دیکھنا
وہ نہ رہ سکے گا جدا ہوکر
دیوانہ ہے پھر یہیں آئے گا
وہ اب بھی اسی بات پہ اٹکا ہے
وہ اب بھی یہی سمجھتا ہے
ساتھ ساتھ رہتا تھا پھر نجانے کیوں
ہر وقت مجھ سے الجھتا تھا
کیا تھا اس کے دل میں
کوئی الجھن یا پھر کوئی چھبن
کس لیے وہ مجھ سے جھگڑتا تھا
اس کی نظروں میں جچتا نہ تھا میں شائد
میری ہر ادا کو یونہی سمجھتا تھا
دکھ دے کر وہ انجان سا رہتا تھا
میرے خلوص کو کیسے کیسے پرکھتا تھا
وہ کہتا تھا کہ مان ہے مجھے تم پہ بہت
میری چاہت کو کوئی مثال سمجھتا تھا
پھر کیوں ۔۔۔
میری روح کو پیروں تلے کچلتا تھا
میری تڑپ موم کر نہ سکی اسے
اور بے مول چیزوں سے وہ جلتا تھا
دھوکہ تھا یا کہ فریب نظر
اب بحث سے کیا حاصل
ٹوٹ چکے خوابوں کے محل
مٹ چکے تصویروں کے رنگ
ریزہ ریزہ ہوگئے
کتابوں میں رکھے ہوئے پھول
ماضی کی دھند بن گئی
سینے میں لگی جذبوں کی آگ
رفتہ رفتہ وہ آگ بجھ گئی
میں وہ نہ رہا جو تھا میں کبھی
جن گلیوں راہوں سے وہ گزرتا تھا
آج ان پہ چل کر بھی کوئی یاد نہیں آتا