تمام عمر عذاب لکھنی تھی
مجھے تو اپنی قسمت خراب لکھنی تھی
کیسے ٹوٹے میرے خوابوں کے گھر
مجھ خود پر ایک کتاب لکھنی تھی
پیام الفت نے زخمی کر دیا دل میرا
مجھے تو لفظ لفظ داستان لکھنی تھی
کیسے بدلتے ہیں لوگ چہرے
مجھے تو دنیا پر مثال لکھنی تھی
وہ امیر تھا کسی امیر شہر میں رہنے والا
مجھے تو فقط اپنی اوقات لکھنی تھی
زمانے کا ڈر تھا ُاسے شاید لکی
مجھے تو آندھیوں میں اپنی ذات لکھنی تھی
محفل میں چراغا ہو گیا تمہارے لیے
مجھے اپنے لیے غم کی سوغات لکھنی تھی
لوگ کہتے ہیں مر کے پا لو گئے جنت کو
مجھے تو راہ میں آتی لمبی ُپرصراط لکھنی تھی