مجھ پہ ہیں سیکڑوں الزام مرے ساتھ نہ چل
تو بھی ہو جائے گا بدنام مرے ساتھ نہ چل
تو نئی صبح کے سورج کی ہے اجلی سی کرن
میں ہوں اک دھول بھری شام مرے ساتھ نہ چل
اپنی خوشیاں مرے آلام سے منسوب نہ کر
مجھ سے مت مانگ مرا نام مرے ساتھ نہ چل
تو بھی کھو جائے گی ٹپکے ہوئے آنسو کی طرح
دیکھ اے گردش ایام مرے ساتھ نہ چل
میری دیوار کو تو کتنا سنبھالے گا شکیلؔ
ٹوٹتا رہتا ہوں ہر گام مرے ساتھ نہ چل