مجھ کو بھی گلہ نہ تھا اور اس کو بھی جانا تھا
یوں اچانک بچھڑنے کا بہت اچھا بہانا تھا
اس کے لوٹنےکی امید تھوڑی بھی اگر ہوتی
میں نے آواز دینی تھی اسے واپس بلانا تھا
ہیں درد کے لمحے ہم گلہ نہیں کرتے
یوں اچانک بدل کر وقت نے آزمانا تھا
بہت درد میں بھی ہم نے یونہی لب سی لیے
ہماری سادہ کہانی تھی بہت خاموش فسانہ تھا
کسی بات کا اس کو کیوں الزام دوں میں
بہت معصوم تھا وہ اور تیز زمانہ تھا
معلوم جو ہوتا اک دن بچھڑ جایں گے
جی بھر کے لڑ نا تھا اور خوب سنانا تھا
بس جاتے ہوے اس نے جو پلٹ کر دیکھا
اسی بات کا ڈر تھا اسی با ت نے رلانا تھا