مجھ کو آج کل بہت ستا رہی ہو تم
میرے گماں سے خود کو مٹا رہی ہو تم
ہے کیا جبر میرا اور کیا انس قصور ہے
ناحق مجھ کو کیوں سزا دۓ جارہی ہے تم
نا ہے سایا و پردہ تمہاری بات سے کوئی
کیوں مجھ کو یہ قصے سناۓ جا رہی ہو تم
ہے شوق عجب تم سے جو شوق ہے بے کار
کیوں مجھ کو اپنا شوق بنائے جا رہی ہوں تم
ہر بات ہے تیری جھوٹ کچھ بات سچ نہیں
سچ کے مجھ کو پاٹ پڑھائی جا رہی ہوں تم
قریب آنے کا اب کیا گلہ کرو میں تم سے
زرا پاس آکر دور جاتی جا رہے ہو تم
ہے فرقت کا اک ڈر اب جو یہ ہو رہی ہے
مجھ سے مل کے مجھ سے بچھڑ رہی ہو تم