محبتوں کی کہانیاں عام ہیں جہاں میں
مگر ہماری یہ داستاں سب سے منفرد ہے
نہ حسن حیرت فروذ تیرا
نہ عشق حسرت فروذ میرا
ہم عام سے لوگ ہیں مگر، جاناں
ہماری چاہت عظیم تر ہے
ہمارے دامن میں وصل کم ہے فراق زیادہ
ہماری آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب زیادہ
بہت ہی کٹھن راستوں سے ہو کر
ہم اپنی پلکوں سے خار چُن کر
اک ایسی منزل کی سمت
محوِِ سفر ہیں اب تک
جہاں گلابوں کے کنج ہوں گے
جہاں ہوا عطر بیز ہو گی
جہاںفضا نغمہ ریز ہو گی
جہاں پہ سکھ کی حسین پریاں
ہتھیلیوں پہ حناء سجائے
دمکتے ہاتھوں میں پھول تھامے
گلاب ہونٹوں پہ چاہتوں کے
حسین نغموں کی دُھن بسائے
ہمارے آنے کی منتطر ہیں
مجھے خبر ہے اے جانِ جاناں
ابھی یہ منزل ہماری آنکھوں سے دور تر ہے
مگر چلو خواب دیکھنے میں حرج کیا ہے