وہ شخص تجھ سے بچھڑ گیا ہے اب اس کا اتنا ملال نہ کر
تو اپنی دنیا میں مست رہ جا کسی کا اتنا خیال نہ کر
کہا جو میں نے وفا کرو گے تو منہ بنا کے وہ مجھ سے بولا
میں تجھ سے پہلے یہ کہہ چکا ہوں کہ الٹے سیدھے سوال نہ کر
بنی ہے دنیا یہ سنگدلوں کی ہم اجڑے لوگوں کو کون چاہے؟
اے دوست میری یہ التجاء ہے تو ہم سے رشتہ بحال نہ کر
حیران پھرتا ہے یہ زمانہ دیکھ کر تیری بے رخی کو
جہاں کرے نہ کوئی محبت تو قائم ایسی مثال نہ کر
یہی برائی بہت ہے میری میں ہنس کے ملتا ہوں ہر کسی سے
میری ناکامی سمجھ لے لیکن یہ راز میرا اچھال نہ کر
تمہیں تو شاید خبر نہیں ہے تیری نگاہ نے تباہ کیا ہے
یوں مسکرا کے نہ دیکھ پیارے کہ جینا میرا محال نہ کر
دل جلانا ہے کام جن کا وہ خاک سمجھیں محبتوں کو؟
تو بھی ساجد بھلا دے اسکو خود کو غم سے نڈھال نہ کر