محبت تھی ہماری اک لفظ تک
چاہت تھی ہماری اک لفظ تک
ہم دور رہ کربھی اک دوسرے کے پاس تھے
کیونکہ ہماری محبت تھی اک لفظ تک
کہتی تو سہی کچھ سمجھ کر کچھ مان کر
چلے جاتے اُس کی خاطر ہر جہان کوہِ مکاں تک
جاتے توتھے ہر روز اُس کے درپر صاحب
تھم جاتے قدم یہ سوچ کر
ہماری محبت تھی بس اک لفظ تک ہماری محبت تھی بس اک لفظ تک
جواب
دل کرتا تو ہے دیکھ لوں نظربھرکر اُس کو
پھر سوچتی ہوں کہ وہ مجرم کے میں مجرم
اُس نے دیکھا تو وہ مجرم ،میں دیکھو تو میں مجرم
پھر چھوڑ دی ہم نے اپنی تقدیریں ایک لفظ پر صاحب
ہماری محبت تھی بس اک لفظ تک ہماری محبت تھی بس اک لفظ تک
کچھ اسطرح دی اس نے اپنی محبت کی گواہی مجھ کوصاحب
کہتی ہے جب بولتی ہوں تو لفظوںمیں تمہاری خوشبو آتی ہے ۔
ہم تو اُن کے لفظوں سےکر لتیے ہے دیدار اُن کا صاحب
دیدار تو بس ایک بہانہ اُن کو اپنے پاس بُلانےکا۔
محبت ہوئی بھی تو کس سے ہوئی رےصاحب
جس کو دی تھی زبان محبت نہ کرنے کی۔
محبت نہ کی تھی نہ ہوئی ہے ابھی تک صاحب
لیکن لگتاہےجب ہوگئی وہ بھی کمال ہوگئی
کوئی غم نہیں اس کا ہم سےدور جانے کا صاحب
کیونکہ اسکا دیا ہوا تحفہ تنہائی میرے ساتھ ہے
ملنے کی کس طرح کریں دعا صا حب
اس وقت تک وہ بہت دور کوچ کر چکا ہوں گا
مر مٹنے کی مت کرو ہم سے بات صاحب ؎
یہ انداز ِمحبت ہے تم پر فدا ہونے کا۔
اگر میں شاعر ہوتا
لکھتا اس پراک کتاب
اس میں سب کچھ دیتا چھوڈ
بس لکھتا اس کا اور اپنا ساتھ
بیٹھ کر اک دوسرے کے سامنے
بس لکھتا اس میں اک دوسرے کی بات
وہ مجھ کو دیکھتی میں اس کو دیکھتا
بس لکھتا اس میں اک دوسرے کی یاد
شروع میں اس کا نام اخر میں اس کا نام
بس اسطرح لکھتا میں اپنی محبت کا اختتام۔
چھوڑ جاتا ہے ہر کوئی اس دنیا میں ہمیں کچھ سفر کے بعد صاحب
میرے رب کا ہی مجھ پر کرم ہے کہ بغیر کسی ظرف کے اب تک مجھے پال رہا ہے