محبت جو مثالی رہ گیٔ ہے
وہ تصویرِ خیالی رہ گیٔ ہے
خزاں میں جھڑ گیۓ سب پھول پتے
اکیلی ذرد ڈالی رہ گیٔ ہے
طبیعت تھی کبھی جو لا ابا لی
کہاں اب لا ابا لی رہ گیٔ ہے
تمہیں جو بات ہم کہنے نہ پاۓ
وہ دِل میں ہی سنبھالی رہ گیٔ ہے
کبھی حاصل تھے جو خوش رنگ لمحے
اب اُن کی یاد خالی رہ گیٔ ہے
ضیافت اب تو مہماں کی سمٹ کر
بس اِک چاۓ کی پیالی رہ گیٔ ہے
گیۓ سر سبز موسم بارشوں کے
بس اب تو خشک سالی رہ گیٔ ہے
کھلا نہ راز تیری بے رُخی کا
نظر میری سوالی رہ گیٔ ہے