ابھی مسرُور ہیں ہم تم
محبت کی رفاقت میں
نئی چاہت کے بندھن میں
حسیں جذبوں کی شدت میں
مگر یہ دِل نشیں رشتہ
فقط دو چار دن کا ہے
کہ قسمت میں محبت کی
وہ ایسا وقت بھی تو ہے
کہ ہم مصلحت میں ڈوب کر جاناں
سماجوں میں ہی بندھ جائیں
رواجوں میں ہی بندھ جائیں
تُو مجھ سے بے رُخی برتے
میں تجھ سے بے رُخی برتُوں
ہزراروں شِکوے تیرے ہوں
ہزاروں شِکوے میرے ہوں
تجھے میں بے وفا سمجھوں
مجھے تُو بے وفا سمجھے
محبت نام سے ہم کو
کوئی نفرت سی ہو جائے
کہ اپنا یہ حسیں بندھن
کئی مجبوریوں کی نذر ہو کر
بوجھ بن جائے
محبت روگ بن جائے
کیوں نا اُس وقت سے پہلے
کہ خود پر ضبط کر کے ہم
تعلق توڑ دیتے ہیں
محبت چھوڑ دیتے ہیں
محبت چھوڑ دیتے ہیں