محبت کی آگ میں جلنا بھی تو لازم تھا
وفا بھی تو لازم تھی بدلنا بھی تو لازم تھا
ملنے کی تمنا میں جو وہ محفل میں آئے تو
بہکنا بھی تو لازم تھا مچلنا بھی تو لازم تھا
تعجب سے بھری آنکھیں مجھے یوں دیکھتی اکژ
پھر آنسوئوں کے ریلے کا نکلنا بھی تو لازم تھا
نظر ملتے ھی اکژ وہ چرا لیتا نگاہوں کو
تڑپنا بھی تو لازم تھا تکنا بھی تو لازم تھا
رستے ہھی رہے لاعلم اتنے چپ چاپ سے تھے ھم
ٹہرنا بھی تو لازم تھا بچھڑنا بھی تو لازم تھا
نہیں ممکن کہ راہ عشق میں ہی کھو جاتا تنویر
دل توڑنا بھی تو لازم تھا دل ٹوٹنا بھی تو لازم تھا