محبّت کا جنوں ہوا تمام اور ترک تعلق تک بات آ پہنچی ہے
کتنا گہرا تعلق تھا ہمارا مگر کہاں تک بات آ پہنچی ہے
پہلے نیند نہ آتی تھی ان کی نازک بانہوں کے حصار بن
آج نام بھی گوارا نہیں ان کا یہاں تک بات آ پہنچی ہے
فدا تھے ہم ان پہ دل و جاں سے اور مانتے تھے انکی ہر اک بات
مگر ان کی یادوں کو اپنی زندگی سے مٹانے تک بات آ پہنچی ہے
پہلے سوچتے تھے کیسے گزرے گی ہماری زندگی انکے بغیر
آج انکی پرانی تصویروں کو جلانے تک بات آ پہنچی ہے
لوگ پوچھتے ہیں ایسا کیا ہوا تھا آخر ہمارے درمیاں
کیسے بتاؤں انکی ضد کی وجہ سے جدائی تک بات آ پہنچی ہے
اے سلمان اگر وہ خوش ہے تیرے بغیر بھی تو کیا ھوا
اب تو کسی اور سے دل لگانے تک بات آ پہنچی ہے