مداوا نہیں ممکن تماشہ بھی نہ دیکھے
جو ہنستے نہیں دیکھا تو روتا بھی نہ دیکھے
ہے جانا ہی جو اُسکو تو جاتے ہوے مُڑ کے
وہ بہتا مِری آنکھوں سے جھرنا بھی نہ دیکھے
مِرا منتظر چہرہ کبھی اپنی محبت میں
جو روشن نہیں دیکھا تو بجھتا بھی نہ دیکھے
گزر ہی گئی ہے زندگی اُس نے مگر مجھکو
نہ جیتے کبھی دیکھا تو مرتا بھی نہ دیکھے
خدا خیر کرے خبر اُس کی نہیں کب سے
وہ سکھی رہے ہر دم میرا سایہ بھی نہ دیکھے
دلِ ناداں کچھ تو حوصلہ اب کرو تم بھی
نیٔا شمس ِچاہت وہ اُبھرتا بھی نہ دیکھے
(بحر طویل مثمن سالم ۔۔۔فعولن مفاعیلن فعولن مفاعیلن)