مدتوں تک تم ہماری سوچ کا عنواں رہے
ہم تمہاری چاہتوں پہ کِس قدر نازاں رہے
خود نمایٔ جن کی فطرت میں تھی پہلے روز سے
لوگ تیری بزم میں وہ کِس قدر ذیشاں رہے
یہ ہمارے عزم و ہِمت کا فقط اعجاز تھا
مرحلے دُشواریوں کے سب ہمیں آساں رہے
دِل کی مسند پر بٹھایا ہی نہ تھا تم نے ہمیں
ایک مدت تک تمہارے دِل میں گو مہماں رہے
کر دیا ہے وقت نے جو راکھ کندن سا بدن
کِس لیۓ اب زندگی کا زیرِ با ر احساں رہے
اے مری سادہ دِلی چل پھر اُسی کوچے میں چل
اُن کی گلیوں میں نہ مٹنے کا تجھے ارماں رہے
میں نے عذراؔ جان سے بڑھ کر جنھیں سمجھا عزیز
میرے جذبوں سے ہمیشہ بس وہی انجاں رہے