مدتوں سے یار کی چاہ لیے ہوئے
ایک بے وفا سے پیار کی جفا لیے ہوئے
پل بھر تیرا مہمان ہوں اے زندگی تو سن
صدیوں کے بودوباش کی آنا لیے ہوئے
سہہ لیے ہیں سب ستم اس لیے کہ میں
ہوں مریض عشق کی حیا لیے ہوئے
ہر ہاتھ میں ہے سنگ شاہد یہی وجہ
آیا ہوں تیرے شہر میں وفا لیے ہوئے
ہے آس تیرے گھر کی تیرا فقیر ہوں
جاؤں گا کس کے در پہ صدا لیے ہوئے