مرحلہ عشق کا ہم سے سر نہ ہوا
تھا جو دل کا مکیں وہ ہمسفر نہ ہوا
مدہوش ہوں اس کی یادوں میں پھر بھی
کوئی دوسرا منظر آنکھوں سے ظاہر نہ ہوا
رہتا ہے وہ بن کر درد ان سانسوں میں
پھر بھی بن کر مہرباں کبھی وارد نہ ہوا
جلتا رہا دل آگ بن کر اسکی ٹڑپ میں
سایہ کسی شجر کا میرے سر نہ ہوا
ہوتا ہے ہمکلام مجھ سے خوابوں میں
اس سے ملنا میرے مقدر میں نہ ہوا