غم محبت کےجزیرے سے یہ کیا لایا تھا
یادِ ماضی کو ہواؤں میں اڑا لایا تھا
پیار کا راہی مرا راہ میں دم توڑ گیا
مرے زخموں کے لئے آج دوا لایا تھا
میں نے اک بار ہی دیکھا تھا مگر بارِ دگر
وہ تو انبار محبت کے اٹھا لایا تھا
کیوں مجھے ہجر کی دلدل میں یہاں چھوڑ گیا
میرے ہونٹوں پہ اگر ذکرِ وفا لایا تھا
آج مدہوش پڑے ہیں وہ مرے لمس کے ساتھ
"رقص جن کا ہمیں ساحل سے بہا لایا تھا"
میں نے اک بار بھی دیکھا نہ کبھی اس کی طرف
میری تصویر جو آنکھوں میں بنا لایا تھا
میری شاموں میں تری یاد کا ڈھلتا سورج
آج پھر دردِ محبت کو بڑھا لایا تھا
اُس نے کیوں آنکھ چرائی ہے ذرا یہ تو بتا
اپنی چاہت سے جو وشمہ کو اٹھا لایا تھا