مر ہی جائیں گے صنم تیرے فراق میں جل کے
ڈھونڈیں گے سُکوں اب ہم خرابات میں چل کے
وہ نہیں آئے گا گھر میرے ، مُجھ کو تو یقیں تھا
پھر بھی تکتے رہے رستہ ہم ، اور گھر سے نکل کے
صُبح سے شام ہوئی ہے انتظار میں جس کے
چل دیا دیکھتے ہی مُجھ کو ، وہ رستہ بدل کے
کاش کہ ایسا دوبارہ ہو ، دوبارہ ہو کبھی
جیسے وہ آج گِرے ہیں مُجھ پہ ہی پِھسل کے
اور تری چھاپ نہ اُتری ہے نہ اُترے گی کبھی
ہر طرح دیکھ لیا ہم نے سب رنگوں میں ڈھل کے
سبدِ گُل لے کے کھڑے تھے ہم راہ میں جس کی
کُوچے سے وہ گُزرا ہے ، مرے دِل کو مَسل کے
دلِ ناداں اب تڑپنا ہی مقدر ہے ترا
کہاں جائے گا تُو جعفرؔ کے سینے سے نکل کے