مزاج پرہیزگاری ہر لمحہ جھکاؤ میں گذار لیا
میرا الجھنوں بھرا جیون تھا تناؤ میں گذار لیا
حد مُسرفی تو فقط نمائش تک ہی تھی
اپنا پابند کلام بھی تو اڑاؤ میں گذار لیا
بے جا خام و خیال کے کون سے قدر تولتے
اپنا تخمینہ پیمائش اُسی بہاؤ میں گذار لیا
آہ سرد کو ضبط کرنا بھی دشوار تھا بہت
وہی حرارت تاپمان میں نے تاؤ میں گذار لیا
بطور آزمائش ہم تو مفسد ہی نکلے تھے
مگر رغبت معمول یوں کھچاؤ میں گذار لیا
ابکہ زندگی کی زبون کہانی کس کو سنائیں
جو بھی حال تھا حالات کے دباؤ میں گذار لیا