مستوجبِ ظلم و ستم و جور و جفا ہوں
ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرمِ وفا ہوں
آتے ہیں مجھے خوب سے دونوں ہنرِ عشق
رونے کے تئیں آندھی ہوں، کُڑھنے کو بلا ہوں
اس گلشنِ دنیا میں شگفتہ نہ ہوا میں
ہوں غنچہء افسردہ کہ مردودِ صبا ہوں
ہم چشم ہے ہر آبلہء پا کا مرا اشک
ازبسکہ تری راہ میں آنکھوں سے چلا ہوں
دامن نہ جھٹک ہاتھ سے میرے کہ ستم گر
ہوں خاک سرِ راہ کوئی دم میں ہَوا ہوں
دل خواہ جلا اب تو مجھے اے شبِ ہجراں
میں سوختہ بھی منتظرِ روزِ جزا ہوں
گو طاقت و آرام، خور و خواب گئے سب
بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں
اتنا ہی مجھے علم ہے کچھ میں بھی بہر چند
معلوم نہیں خوب مجھے بھی کہ میں کیا ہوں
تب گرمِ سخن کہنے لگا ہوں میں*کہ اک عمر
جوں*شمع سرِ شام سے تا صبح جلا ہوں
سینہ تو کیا فضلِ الہی سے سبھی چاک
ہے وقتِ دعا میر کہ اب دل کو لگا ہوں