اس کے لئے گھوما ہوں میں اِک ارض مسلسل
مرے دل میں یہ جو رہتا ہے اک درد مسلسل
لوٹا ہی دیا ہم نے اسے ترے کوچے میں کل
وہ جاں کا لئے پھرتے تھے جو اک قرض مسلسل
دردوں کی تجارت کا ہی عنوان ہے الفت
تاجر کی دہائی ہے یہی عرض مسلسل
دشمنی کی علامت ہیں یہ پتھر تو مگر
مرا دل کیوں لگاتا ہے مجھے ضرب مسلسل