آج چرچا کوُ با کوُ ہے، جس کی مسیحائی کا
کل تک تو یہ سِتمگر، قاتل تھا خدائی کا
ہم نے مٹا دی ہاتھ سے، اسکی وفا کی ہر لکیر
اس نے توڑا آئینہ، برسوں کی شناسائی کا
ہم نے بھلایا عشق جو، کھویا وہ سب حسن ِ فنا
تھا کبھی جو مِثل ِ گل، یکتا رخ ِ زیبائی کا
آج بھی وہ ڈھونڈھتا ہے ، خلوتوں کا بانکپن
درویش نوحہ ہم بھی لکھتے ہیں غم ِ ہرجائی کا