نگاہ ناز نے تیری
مجھے پتھر بنا ڈالا
بظاہر دیوتا ہوں میں
مگر ہوں بے نوا اب بھی
تکلم میں نہیں رکھتا
تصرف میں نہیں رکھتا
ابھی تک نامکمل ہوں
میری تکمیل تجھ سے ہے
مسیحا! سوچ لے اب بھی
میری بے نور سی آنکھیں
میرا بے رنگ سا چہرہ
تجھے آواز دیتے ہیں
گداز جاں فزا دے دے
مسیحا! سوچ لے اب بھی
میں اک پتھر کی مورت ہوں
پگھل سکتا ہوں میں اب بھی
بڑھا دست حنا اپنا
کہ اس پتھر کی رگ رگ میں
رواں ہوں خون کی لہریں
مسیحا! سوچ لے اب بھی
مجھے تیری ضرورت ہے
مجھے تیری ضرورت ہے