مسیحا نے بھی کیا خوب مسیحائی کی
پہلے جام پلایا پھر جگ ہنسائی کی
خاکم بدھن جو کوئی شکوہ کروں مگر
لوگ کہتے ہیں تم نے بے وفائی کی
دعا ہے کہ چلے آؤ کسی روز تم
اب تو حد ہوئ جاتی ہے تنہائی کی
جسے دولت جنوں سے حصہ نا ملا
اسی نے دیوانوں پہ انگشت نمائ کی
حاکم شہر مجمع عام تیر الزام
کون سنتا بات میری پارسائی کی