مشکلوں میں ہی ڈال رکھا ہے
جس کا ہر دم خیال رکھا ہے
کیسا تِل ہے جناب کے رُخ پر
سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے
تیری ہجرت کے خالی کمرے میں
تیری یادوں کو پال رکھا ہے
درد پہلے تھا مشرق و مغرب
اب جنوب و شمال رکھا ہے
آ بھی جاؤ نہ موت سے پہلے
زندگی کو سنبھال رکھا ہے
تیری سانسوں سے سانس کا رشتہ
میں نے ہر دم بحال رکھا ہے
سب ہے اُس کی ہی ذات میں وشمہ
جس قدر بھی کمال رکھا ہے