یہ ظلم عورتوں پہ سحر، شام، اُف
ہے اک نئ مصیبت بہر گام، اُف
یہ عورت کے حق میں ہے تقسیم کیا
نہیں کام اس کو بجز کام، اُف
جو بیٹی ہے بیوی ہے اور ماں بھی ہے
اسے پھر بھی دیتے ہو دشنام، اُف
یہ عورت سے جا کر ہی پوچھے کوئ
جو عورت پہ چلتی ہے صمصام، اُف
یہ ہے معاشرہ کس طرح کا جہاں
ہے تحقیرِ نسواں سرِ عام، اُف
فکر جس کو سب کی ہے اس کے لیے
نہ عزت، نہ عظمت، نہ اکرام، اُف
کسی بہن کو کر کے برباد لوگ
سمجھتے ہیں خود کو وہ ضرغام، اُف
اِدھر تو گلِ تر سی لڑکی ہے اور
اُدھر بھیڑیا، دُرد آشام، اُف
جگر یہ اگر ہے تو عورت کا ہے
نہیں کرتی سہہ کے جو آلام، اُف
یہ عورت کی قسمت میں لکھی ہے بات
قبر میں کرے گی وہ آرام، اُف
اگر اس کو کہہ دے تو پھٹ جاۓ دل
ہے عورت کا وہ دردِ ابہام، اُف
کبھی تو سدھر جاۓ گا معاشرہ
تم، تمہارے یہ اوہام، اُف