میرا ہمدرد بننے سے، کڑے سفاک ہونے تک
معتبر تھا وہ اِک پیکر، گریباں چاک ہونے تک
نئی ہی چال کوئی ہر بار، مجھ پر آزماتا تھا
اور بازی جیت لیتا تھا، میرے چالاک ہونے تک
دانستہ ہی سہا میں نے، تضادِ رائے، رنج و غم
رکھنا تھا مان رشتوں کا، سراپاءخاک ہونے تک
سارے بدلے چکاﺅں گا، خوں کے آنسو رُلاﺅں گا
سُدھر جاﺅ خُدارا تم، میرے بے باک ہونے تک
کبھی لہجوں کی کڑواہٹ، کبھی باتوں کے نشتر سے
رکھا گھائل مجھے حاوی، میرے ہلاک ہونے تک