مفلسی کی آغوش میں
لوگ سوتے ہیں
خواب جاگتےہیں
بدنصیبی آھٹ بھی
تو نہیں کرتی
تعبیروں کے در
مقفل ہی رہتے ہیں
نہ ہوا آتی ہے
نہ روشنی
بس گھٹن ہے
ہر طرف
سانس بھی
ایسے آتی ہے
جیسے مفلس کو
بھیک میں
روٹی ملتی ہے
تقدیر کا قفل
تدبیر کی چابی سے
کیوں اب کھلتا نہیں
خواب آنکھوں میں ھی
بسیرا کرتے ہیں
کوئی بھی تو
زمین پر اترتا نہیں