مقروض

Poet: سید محمد ذوہیب شاہ By: سید محمد ذوہیب شاہ , Karachi

مقروض ہوں میں جہاں میں سب کا
ہر شخص نے مجھ کو سِکھایا بہت ہے

فقط الفاظ نہیں، یہ حقیقت ہے میری
ہاں، جذبات کو اپنے چُھپایا بہت ہے

اوڑھا ہے بڑی خوب یہ لباسِ خامُشی
پاس اگرچہ الفاظ کا سَرمایہ بہت ہے

گُزریں گر یہ دِن تو گُزریں گے کیسے؟
دُنیا والوں نے مُجھ کو ستایا بہت ہے

دُنیا کی محفلوں میں جانا ہی کم ہوا
غمِ اُلفت نے پاس اپنے بِٹھایا بہت ہے

آیئنے میں آج دیکھ کر احساس یہ ہوا
اِسی شخص نے مُجھ کو رُلایا بہت ہے

کہتے ہیں کہ بہت ہی رنگین ہے دنیا
ہر شخص نے نیا رنگ دکھایا بہت ہے

چل دۓ سبھی آزمائش میں ڈال کر
حَسبِ توفیق سب نے آزمایا بہت ہے

ہوں بس مُعجزہِ حَق کی تلاش میں
میں نے رَب کو دُکھ اپنا سُنایا بہت ہے

Rate it:
Views: 508
16 Jun, 2023
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL