مماثلت ہے قوم کی ایک لاش ٹھنڈی سے
یقیں نہیں؟ چبھو اِسے غیرت کی ڈنڈی سے
راہ سے اُٹھائی تو پیروں کے نشاں تھے
شرم مجھے آئی بہت اُس قومی جھنڈی سے
کوئی پوچھنے والانہیں، گلی کا عطائی
ہر مرض کا علاج کرتا ہے ، ارنڈی سے
کپڑے اتار لیتے ہیں گر کچھ نہیں ملے
محفوظ رہ سکے رقم، تیری بنڈی سے
زندگی کرلی تباہ کوٹھے پہ جب اس نے
خود ہے بے قصور، شکایت ہے رنڈی سے
ہر چیز تجارت ہے اس دورِ جدید میں
انسان بھی بکتاہے اب قانونِ منڈی سے
پیار میں ہوتا نہیں چھوٹا بڑا ریاض
بہتر ہے رہے دور تو ایسے گھمنڈی سے