نہ گھر نہ ٹھکانہ کہاں جا رہی ہوں
اپنی دھن میں مست بھاگتی جا رہی ہوں
زندگی کی یہ منزلیں دلچسپ و حسیں
کیا لینا ہے ان سے پر ڈھونڈتی جا رہی ہوں
یہ اسرار زیست موت کی یہ پہنائیاں
تذبذب میں غرق جاگتی جا رہی ہوں
مرے مالک ترےامتحان یہ مری قسمت
یہ دکھ ہیں میرے اپنے جھیلتی جا رہی ہوں
نہ ہے کوئی دوست نہ کوئی غمگسار اپنا
تلخ و شیریں کو خوش خوش پھانکتی جا رہی ہوں
یہ قتل و خوں گرتے ہوئے یہ لاشے
گریہ گریہ مرادیس مگر چاہتی جا رہی ہوں
جانے والے بنا کچھ کہے چلے گئے ہیں
تلاش میں انکی میں کیوں رلتی جا رہی ہوں
ترا کرم ، فضل ترا ہی آسرا ہے
اسی کو میں ہر گھڑی مانگتی جا رہی ہوں