مکان رہ گیا، مکین نہ رہا پیار پہ مجھے یقین نہ رہا میری الفتوں کا عادی عدو ہوا، رفیق نہ رہا منہ موڑ کے گیا وہ ایسے کہ آنکھوں پہ یقین نہ رہا جاوید تجھ پہ بھروسہ تھا سب کو تیرے وعدوں پہ بھی اب یقین نہ رہا