تُجھے یقیں کہ ترا حُسن ہے سپردِ نقاب
مُجھے یہ فکر کہ تارے چھُپے نہیں رہتے
٭
مدّت کے بعد اذنِ تبسّم مِلا ہمیں
وہ بھی کچھ ایسا تلخ کہ آنسوُ نِکل پڑے
٭
صُبح کی دُھن میں ستاروں کو بُجھایا مَیں نے
قبل از وقت مگر پَو کا بکھرنا معلوم
٭
اپنے ذوقِ نظر کا ماتم ہے
تیرگی ایک سیلِ نور سہی
٭
کئی چراغ کئی آئنوں میں عکس فگن
مَیں راہ بھوُل گیا تھا اسی چراغاں میں