مُدتوں سے جو ملی منزِل نہیں
پیار ہی شاید مرا کامِل نہیں
عُمر کاٹوں گا اُسی کے ہجر میں
نِت نئ اُلفت کا میں قائِل نہیں
جِس میں ہو احساس وہ ہی اِنس ہے
ہے وہ پتَّھر پاس جِس کے دِل نہیں
جان لے ناراض تُجھ سے ہے خدا
دَر پہ جب آۓ کوئ سائِل نہیں
اے شرابی جا کے میخانے میں پی
یہ مرا گھر ہے تری محفِل نہیں
غَم رلاۓ گا یہ مجھ کو عُمر بھر
کیوں اُسے میں کر سکا حاصِل نہیں
اُس کو باقرؔ کیسے دُوں میں بدعا
بے وَفا ہے پر مرا قاتِل نہیں